شاعر: ڈاکٹر فخر عباس
سمندروں سے میں اک جزیرے میں آ گیا ہوں
گھنے درختوں کے نرم سائے میں آ گیا ہوں
نہ کوئی مقصد، نہ جستجو ہے کسی کی مجھ کو
میں اتفاقاً تمھارے کوچے میں آ گیا ہوں
نہیں ہوں مومن کہ حسن نے پھر سے ڈس لیا ہے
میں عشق زادہ کسی کے دھوکے میں آ گیا ہوں
میں دیکھتا ہوں کہ تم بھی مجھ سے بچھڑ رہے ہو
سمٹ کے صدیوں سے ایک لمحے میں آگیا ہوں
خدا کا ہونا مرے خیالوں پہ چھا گیا ہے
تو میں اندھیروں سے اک اجالے میں آ گیا ہوں