شاعر: ندیم ملک
دیا ہتھیلی پہ جلتا رہا مصیبت میں
بھگت رہے ہیں سزا پرسزا مُصیبت میں
پھر اپنے آپ کو اُس نے ہوا کوسونپ دیا
عطا ہوا تھا جسے آسرا مُصیبت میں
میں اپنے ہاتھ میں دنیا کا درد لے آیا
پھر اس کے بعد مرا کیا بنامُصیبت میں
یہ رنگ و بُو تو کسی شوخ کی عنایت ہیں
جو چھوڑ چھاڑ کے مجھ کو گیامُصیبت میں
نکال دستہٗ تحریر لکھ محبت کو
بڑا نکالنے آیا جفا مُصیبت میں
میں اپنے آپ کو تسلیم کر نہیں سکتا
میں کیاہوں مجھ کو پتہ چل گیا مصیبت میں
ندیم وصل میں تنہائیوں کو ڈستے ہوئے
خدا بنا ہے کوئی آئنہ مُصیبت میں
ندیم ملک