شاعر: خلیل الرحمن اعظمی
ہر گھڑی عمرِ فرومایہ کی قیمت مانگے
مجھ سے آئینہ مرا میری ہی صورت مانگے
دور رہ کر ہی جو آنکھوں کو
بھلے لگتے ہیں
دلِ دیوانہ مگر ان کی ہی قربت مانگے
پوچھتے کیا ہو ان آنکھوں
کی اداسی کا سبب
خواب جو دیکھے وہ خوابوں کی حقیقت مانگے
اپنے دامن میں چھپا لے مرے
اشکوں کے چراغ
اور کیا تجھ سے کوئی اے شبِ فرقت مانگے
وہ نگہ کہتی ہے بیٹھے رہو
محفل میں ابھی
دل کی آشفتگی اٹھنے کی اجازت مانگے
زہر پی کر بھی جیوں میں،
یہ الگ بات مگر
زندگی اس لبِ رنگیں کی حلاوت مانگے
زیب دیتے نہیں یہ طرّہ و دستار مجھے
میری شوریدہ سری سنگِ ملامت مانگے