Poetry غزل

غزل


شاعرہ: فوزیہ شیخ
کب گوارہ تھی زمانے کی کوئی بات مجھے
وہ تو لے آئی یہاں گردشِ حالات مجھے
روک سکتی ہوں اسے روز ِ قیامت تک بھی 
سنگ تیرے جو ملے پیار کی اک رات مجھے
صرف چہرے سے محبت نہیں ہوتی مجھ کو
دل میسر ہی نہیں حسب ِ خیالات مجھے
زندگی ہجر کے بستر پہ سلاؤں کیسے
کھینچ لاتے ہیں محبت کے نشانات مجھے
آخری گام تلک جیت ہی سمجھی میں نے
بڑی تدبیر سے لائی ھے مری مات مجھے
لوگ جس کار ِ اذیت میں مرے جاتے ہیں
زندہ رکھتے ہیں وہی ہجر کے لمحات مجھے 💖
تم سے ملنے کے لیے روز پڑھا کرتی تھی
اب بچھڑ نے ہی نہیں دیتیں یہ آیات مجھے
لفظ ہونٹوں سے نکلتے ھوئے مر جاتے ہیں
اس سے آتی ہی نہیں کرنی شکایات مجھے
فوزیہ شیخ

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں