شاعرہ: فوزیہ شیخ
کب گوارہ تھی زمانے کی کوئی بات مجھے
وہ تو لے آئی یہاں گردشِ حالات مجھے
روک سکتی ہوں اسے روز ِ قیامت تک بھی
سنگ تیرے جو ملے پیار کی اک رات مجھے
صرف چہرے سے محبت نہیں ہوتی مجھ کو
دل میسر ہی نہیں حسب ِ خیالات مجھے
زندگی ہجر کے بستر پہ سلاؤں کیسے
کھینچ لاتے ہیں محبت کے نشانات مجھے
آخری گام تلک جیت ہی سمجھی میں نے
بڑی تدبیر سے لائی ھے مری مات مجھے
لوگ جس کار ِ اذیت میں مرے جاتے ہیں
زندہ رکھتے ہیں وہی ہجر کے لمحات مجھے 💖
تم سے ملنے کے لیے روز پڑھا کرتی تھی
اب بچھڑ نے ہی نہیں دیتیں یہ آیات مجھے
لفظ ہونٹوں سے نکلتے ھوئے مر جاتے ہیں
اس سے آتی ہی نہیں کرنی شکایات مجھے
فوزیہ شیخ