شاعر: خالد سجاد احمد
نجانے کس مسافت کے لیے نقشہ بناتا ہوں
بڑی مشکل سے میں اپنے لیے رستا بناتا ہوں
خیال و خواب سے باہر کبھی دستِ ہنر میں آ
ستاروں سے میں آنکھیں پھول سے چہرہ بناتا ہوں
خبر کیا تھی وہی آ کر مری ہستی اجاڑے گا
میں جس کے واسطے ہر دن نئی دنیا بناتا ہوں
انہی رستوں پہ چل کر اور بھی کچھ لوگ آئیں گے
یہی کچھ سوچ کر میں اپنے نقشِ پا بناتا ہوں
مری دنیا کی سب چیزیں الگ ہیں تیری دنیا سے
تجھے کیسے بتاؤں یار میں کیا کیا بناتا ہوں
میں اپنی ذات میں کوئی سمندر تو نہیں لیکن
وہی مجھ میں چلا آیا جسے دریا بناتا ہوں
اُسے اس دھوپ میں جلنے کو کیسے چھوڑ دوں خالد
میں جس کے سر پہ اپنے ہاتھ سے سایہ بناتا ہوں