شاعر: ڈاکٹر فخرعباس
چہرے سے کب عیاں ہے مرے اضطرار بھی
لیکن میں کر رہا ہوں ترا انتظار بھی
شاید تجھے ہو دسترس اپنے وجود پر
مجھ کو تو اِس نظر پہ نہیں اختیار بھی
ملنے لگے ہیں اب تو خوشی کے لباس میں
غم ہاے زندگی کا ہے کوئی شمار بھی؟
ہو لاکھ خوبرو کوئی اپنے تئیں مگر
ہوتا ہے عکس و آئینہ پر انحصار بھی
یک جا ہوئی ہیں حُسن کی سب اُس میں خوبیاں
چہرے پہ تازگی ہے، نظر میں خمار بھی
لگتا ہے جان بوجھ کے ایسا کیا گیا
تُو نے بنائی چیز کوئی پائیدار بھی؟
محظوظ ہم بھی ہوں گے جو فرصت کہیں ملے
گلشن بھی ہے، گلاب بھی، رنگِ بہار بھی