شاعر: سید فضل گیلانی
تمام عمر کبھی مجھ سے حل ہوا ہی نہ تھا
وہ مسئلہ جو حقیقت میں مسئلہ ہی نہ تھا
بدن سے جس کی تھکن آج تک نہیں اتری
میں اس سفر پہ روانہ کبھی ہوا ہی نہ تھا
کچھ اس لیے بھی مجھے ہجر میں سہولت ہے
ترا وصال کبھی میرا مدعا ہی نہ تھا
بدن کا بھید کھلا ہے ترا بدن چھو کر
یہ مصرع مجھ پہ وگرنہ کبھی کھلا ہی نہ تھا
اسی لیے تو مجھے لوٹنا پڑا سیّد
کہ میرے پاس کوئی اور راستہ ہی نہ تھا