Poetry غزل

غزل

از: شاہد ماکلی

دن نکلتا ہے منظر چمکتا ہے سب دیکھتے ہیں
ایک رخ ہے جسے صرف اہل طلب دیکھتے ہیں

ایک دم جلتے سورج کو تکنا نظر کا زیاں ہے
آنکھ جب دیکھ سکنے کے لائق ہو تب دیکھتے ہیں

روتو لیں پہلے,پھر سوچتے ہیں کہ روئے ہیں کیوں ہم
ہو تو لے بعد میں واقعے کا سبب دیکھتے ہیں

گاہے ایسی بھی تصویر بن جاتی ہے کینوس پر
جس کو آنکھیں مری چومتی ہیں تو لب دیکھتے ہیں

آسماں سے اترتی ہے روز ایک تازہ نشانی
لوگ پہلے کبھی دیکھتے تھے نہ اب دیکھتے ہیں

روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہونے سے جانا
خواب کی جو حقیقت ہے ہم لوگ کب دیکھتے ہیں

سوچتے تب ہیں جب ذہن ہوتا ہے سوچوں سے خالی
آنکھ جب دیکھنے سے گریزاں ہو تب دیکھتے ہیں

پوری شدت سے محسوس بھی اس کو کرتے ہیں شاہد
جس دکھائی نہ دیتی ہوئی شے کو جب دیکھتے ہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں