از: شاہد ماکلی
دن نکلتا ہے منظر چمکتا ہے سب دیکھتے ہیں
ایک رخ ہے جسے صرف اہل طلب دیکھتے ہیں
ایک دم جلتے سورج کو تکنا نظر کا زیاں ہے
آنکھ جب دیکھ سکنے کے لائق ہو تب دیکھتے ہیں
روتو لیں پہلے,پھر سوچتے ہیں کہ روئے ہیں کیوں ہم
ہو تو لے بعد میں واقعے کا سبب دیکھتے ہیں
گاہے ایسی بھی تصویر بن جاتی ہے کینوس پر
جس کو آنکھیں مری چومتی ہیں تو لب دیکھتے ہیں
آسماں سے اترتی ہے روز ایک تازہ نشانی
لوگ پہلے کبھی دیکھتے تھے نہ اب دیکھتے ہیں
روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہونے سے جانا
خواب کی جو حقیقت ہے ہم لوگ کب دیکھتے ہیں
سوچتے تب ہیں جب ذہن ہوتا ہے سوچوں سے خالی
آنکھ جب دیکھنے سے گریزاں ہو تب دیکھتے ہیں
پوری شدت سے محسوس بھی اس کو کرتے ہیں شاہد
جس دکھائی نہ دیتی ہوئی شے کو جب دیکھتے ہیں