شاعر: ڈاکٹر خورشید رضوی
شبِ غربت میں جو خوشبوے وطن پاس آئی
دیرتک سانس نہیں، صرف تری باس آئی
جب نوشتوں میں متاعِ دو جہاں بٹتی تھی
میرے حصے میں یہی شدتِ احساس آئی
کوئی اُمید ہے مجھ کو نہ کوئی اندیشہ
آس آئی مرےدل میںنہ کبھی یاس آئی
جب کھلاسانس لیاہے مہک اٹھا ہے مشام
یہ مرےہاتھ عجب دولت ِ انفاس آئی
جب بھی آئی ہے کبھی اُس نگہِ ناز کی یاد
شیشئہ دل کے لیے صورتِ الماس آئی
تُو اِسی کلبۂ احزاں میں پڑا رہ خورشید
تجھ کو کب صحبت ِ ابناے زماں راس آئی