شاعر: سہیل رائے
خود کلامی میں نیا رنگ بھی ڈالا جائے
اب کسی طور مجھے خود سے نکالا جائے
پہلے پتوں میں مرا ذکر تو شامل کر نا
پھرکہیں سبز، کہیں زرد حوالہ جائے
میں ہمیشہ ہی ترا ورد کیا کرتا ہوں
مرے بچوں کو ترے نام سے پالاجائے
میری قسمت میں کوئی ہار تو لکھی ہی نہیں
اب ذرا سوچ کے سکہ بھی اچھالا جائے
رونے والوں کو بتاؤ کہ حقیقت کیا ہے
ہنسنے والوں کو ذرا رنج سے ٹالا جائے
میں اگردھوپ کی آنکھوں سے نکل کرآؤں
پھر نہ سورج مرے ماتھے پہ اچھالا جائے
اپنے اندر ہی کہیں بانٹ لیا ہے تجھ کو
کیوں کسی سمت ترے جسم کا ہالہ جائے
میں تو کردار نبھانے کے لیے آیا ہوں
اتنی جلدی نہ کہانی سے نکالا جائے
اُس کی آنکھوں نے مرا ہوش اڑایا ہے سہیل
اب اسی زلف کے مرہم سے سنبھالا جائے
سہیل رائے