شاعرہ : نادیہ عنبرلودھی
سیم وزر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں
کسی شہزادی سی تقدیر نہیں چاہتی میں
مکتبِ عشق سے وابستہ ہوں کافی ہے مجھے
داد ِ غالب ، سند ِ میر نہیں چاہتی میں
فیض یابی تری صحبت ہی سےملتی ہےمجھے
کب ترے عشق کی تاثیر نہیں چاہتی میں
قید اب وصل کے زنداں میں تو کر لے مجھ کو
یہ ترے ہجر کی زنجیر نہیں چاہتی میں
ایک دو روز کا مہمان ہے اس شہر میں وہ
اور اس عشق کی تشہیر نہیں چاہتی میں
مجھ کو اتنی بھی نہ سکھلا تُو نشانہ بازی
تجھ پہ چل جاۓ مرا تیر نہیں چاہتی میں
اب تو آتا نہیں عنبر وہ کبھی سپنے میں
اب کسی خواب کی تعبیر نہیں چاہتی میں
—-نادیہ عنبر لودھی