شاعر: غلام حسین ساجد
روشن ہوئی ہے بامِ افق پر جبینِ صبح
کیاہو رہیں گی اب مری آنکھیں رہینِ صبح
کس روشنی میں گھومتے پھرتے ہیں آئنے
کس نے جڑا ہے میری گلی پر نگینِ صبح
کیا ہو چکے یہ چاند ستارے مرے اسیر
کیابخش دی ہے اُس نے مجھے سرزمینِ صبح
میں بھی کسی ستارۂ راحت کے دم سے ہوں
اورنگِ خواب پر کبھی مسند نشینِ صبح
روشن ہوئے ہیں ڈوبتی آنکھوں میں پھر چراغ
تھے انتظار میں اسی شب کے مکینِ صبح
میں نے بھی ایک خواب کی تعبیر کی تو ہے
میں نے بھی دینِ عشق سے سیکھا ہے دینِ صبح
میں جب حدودِ قریۂ شب سے نکل گیا
آیا مری تلاش میں اک خوشہ چینِ صبح
ساجد مرے خمار کی تائید سے ہوا
شامل شرابِ خواب میں کل انگبینِ صبح