ڈاکٹرخورشید رضوی
دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا
ایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا
اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنھیں آتا تھا
خاک سے دل جو اَٹے ہوں، انھیں جاری کرنا
موت کی ایک علامت ہے، اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا
تُو کہاں، مرغِ چمن ! فکرِ نشیمن میں پڑا
کہ ترا کام تو تھا نالہ و زاری کرنا
ہوں مَیں وہ لالۂ صحراکہ ہُوامیرے سپرد
دشت میں پیرویٔ بادِ بہاری کرنا
اِس سے پہلے کہ یہ سودامرے سرمیں نہ رہے
دستِ قاتل کو عطا ضربتِ کاری کرنا
یہ جو ٹپکا ہے زباں پر سو کرم ہے یہ ترا
اب رگ و پَے میں اسے جاری وساری کرنا
بخشنا لعل و جواہر سے سوا تابِ سخن
خاک کو انجمِ افلاک پہ بھاری کرنا
(خورشید رضوی)