Poetry غزل

غزل

شاعرہ : عذراناز

یہ مت سوچو تھوڑے سے کیا بنتا ہے

قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے

پودے جیسا اس کو سینچنا پڑتاہے

ایسے تھوڑی رشتہ گہرابنتا ہے

کتنے خاکے ذہن میں بنتے مٹتے ہیں

پھر کوئی دھندلا سا چہرہ بنتا ہے

دیکھ کسی سے کوئی بھی امید نہ رکھ

اس دنیا میں کون کسی کا بنتا ہے؟

چاہت کی لے جاگے تو سر بنتے ہیں

دل کے تار چھڑیں تو نغمہ بنتا ہے

بالیں جب گندم کی پوری پکتی ہیں

تب کھیتوں کا رنگ سنہرا بنتا ہے

لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنتی ہوں

مر جائے انسان تو تارہ بنتا ہے

رشتے جب سڑ جائیں تو بو دیتے ہیں

اور پھر اک دن ان کا لاشہ بنتا ہے

گھر کے اندر آ کر اس کو دیکھ ذرا

لوگوں کے آگے جو اچھا بنتا ہے

رو رو کر جب آنکھیں خالی ہو جائیں

اشکوں کا دریا تب صحرا بنتا ہے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں