نوید فدا ستی
دشت کے خاص حوالے نظر آتے ہیں مجھے
پاوں میں خون کے چھالے نظر آتے ہیں مجھے
حیف صد حیف تجھے دیکھ نہیں پاتا میں
شکر صد شکر اجالے نظر آتے ہیں مجھے
نیند لگتی ہے چمکتے ہوئے سورج کا شکار
خواب آنکھوں کے نوالے نظر آتے ہیں مجھے
تم انہیں اندھا سمجھنے کی حماقت نہ کرو
یہ تو سب دیکھنے والے نظر آتے ہیں مجھے
جب سے گھر چھوڑ کہ وہ چاند گیا ہے میرا
چھت تو چھت فرش پہ جالے نظر آتے ہیں مجھے
یہ کہیں شہرِ تصوف تو نہیں دور تلک
سب کے کندھوں پہ دوشالے نظر آتے ہیں مجھے
دیکھتا ہوں میں نئے ڈھنگ سے دنیا کو فدا
اور منظر بھی نرالے نظر آتے ہیں مجھے
نوید فدا ستی