میرتقی میرؔ
عشق کیا کوئی اختیار کرے
وہی جی مارے جس کو پیار کرے
غنچہ ہے سر پہ داغ سودا کا
دیکھیں کب تک یہ گل بہارکرے
آنکھیں پتھرائیں چھاتی پتھر ہے
وہ ہی جانے جو انتظار کرے
سہل وہ آشنا نہیں ہوتا
دیر میں کوئی اس کو یار کرے
کبھو سچے بھی ہو کوئی کب تک
جھوٹے وعدوں کو اعتبار کرے
پھول کیا میرؔ جی کو وہ محبوب
سر چڑھاوے گلے کا ہار کرے