فراق گورکھپوری
آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جوتھا
پھر فسانہ بحدیثِ دگراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اُڑی جاتی ہیں
وہی انداز جہانِ گذراں ہے کہ جو تھا
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھند لکے کا سماں ہے کہ جوتھا
لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جوتھا
آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے
آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا
عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثرِ سوز نہاں ہے کہ جو تھا
قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
تیرہ بختی نہیں جاتی دلِ سوزاں کی فراقؔ
شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا
فراق گورکھپوری