عاطف جاوید عاطف
ہو گئی برباد کتنی شاد کتنی رہ گئی
دیکھنا ہے زندگی آباد کتنی رہ گئی
اور باقی رہ گئی اب سانس کی کتنی رسد
کاسہ ءِ دل یہ بتا امداد کتنی رہ گئی
چار دن کا عہد تھا سو کب تلک ہوگا وفا
ٹھیک سے گِن کر بتا معیاد کتنی رہ گئی
بن سنور کے دیکھ تو لیں آئینہ ءِ زندگی
اُس نِگاہِ شوق میں اب داد کتنی رہ گئی
آو گِن کےدیکھتے ہیں دوستوں کی بھیڑ میں
چاہنے والوں کی اب تعداد کتنی رہ گئی