ضیا ندیم
میں حال میں نہیں گزرے دنوں میں رہتا ہوں
اسی لیے میں سدا مشکلوں میں رہتا ہوں
کبھی چبھن کبھی اندیشے درد و یاس کبھی
سکوں ہو کیسے کہ میں گردشوں میں رہتا ہوں
حقیقتوں سے چرائے ہوئے نظر ہر پل
نہ جانے کیوں میں عجب وسوسوں میں رہتا ہوں
کوئی تو ہو جو مجھے راہ زیست پر لے آئے
وگرنہ میں تو عجب واہموں میں رہتا ہوں
میں شب کو جاگتا ہوں اور دن میں سوتا ہوں
میں بے اصول کہاں ضابطوں میں رہتا ہوں