شاعر: توصیف تبسم
دل سا کوئی دوست کہاں تھا، جاں د ینے میں فرد بہت
سو وہ پہلے کام آیا، تھا اُس کو زعمِ نبرد بہت
پچھلی شب جب یاد میں تیری آنکھ سے آنسو ٹپکا تھا
تارے بھی جھلمل کرتے تھے، چاند بھی تھا کچھ زرد بہت
پہلا لفظ محبت تھا جو ہم نے پہلی بار لکھا
اب تک یہ پوریں جلتی ہیں، دل میں بھی ہے درد بہت
وحشت میں جب ہاتھ اٹھا کر ہم نے رقص آغاز کیا
ایک بگولا اٹھ کر بولا: تم سے صحرا گرد بہت
سوچ سمجھ کے چلنا لوگو! قدم ذرا دھیرے رکھنا
پائوں تلے کی اس مٹی میں ہوں گے راہ نورد بہت
اچھا ہے اس دل کی جانب، نوکِ مژہ ہموار رکھو
ورنہ اک دن جم جائے گی آئینے پر گرد بہت
چشمِ زمانہ تھی نگراں، توصیف کہاں کھل کر روتے
کنجِ چمن اور بھیگا دامن، دونوں تھے ہمدرد بہت