شاعر: بیدل حیدری
دریا نے کل جو چُپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحراپہن لیا
وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن
جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا
فاقوں سے تنگ آئے توپوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے توشب کا اندھیرا پہن لیا
گرمی لگی توخودسے الگ ہوکے سوگئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو اُلٹا پہن لیا