اسد رحمان
دل نے چاہا تھا کسی شام تمہارے در سے
لے کے جائے کوئی الزام تمہارے در سے
عازمِ کوئے ملامت ہوئے زائر کتنے
اوڑھ کر جامہِ دُشنام تمہارے در سے
ڈھونڈ لینا مجھے آسان نہیں تھا لیکن
پا گئی گردشِ ایام تمہارے در سے
ایسا لگتا ہے مری عمر سفر میں گذری
چل کےآیا ہوں جودوگام تمہارےدر سے
روک سکتا ہے بھلا خام خیالوں سے کہو
مجھ کو اندیشہء انجام تمہارے در سے
نفسِ مضمون کواب چھوڑ یہی کافی ہے
کوئی آیا تو ہے پیغام تمہارے در سے
لاج رکھ لی ہے مری خونِ جبیں نے ورنہ
مِٹنے والا تھا مرا نام تمہارے در سے