Poetry غزل

غزل ۔۔۔ شاعر: اسد رحمان


اسد رحمان
دل نے چاہا تھا کسی شام تمہارے در سے
لے کے جائے کوئی الزام تمہارے در سے
عازمِ کوئے ملامت ہوئے زائر کتنے
اوڑھ کر جامہِ دُشنام تمہارے در سے
ڈھونڈ لینا مجھے آسان نہیں تھا لیکن
پا گئی گردشِ ایام تمہارے در سے
ایسا لگتا ہے مری عمر سفر میں گذری
چل کےآیا ہوں جودوگام تمہارےدر سے
روک سکتا ہے بھلا خام خیالوں سے کہو
مجھ کو اندیشہء انجام تمہارے در سے
نفسِ مضمون کواب چھوڑ یہی کافی ہے
کوئی آیا تو ہے پیغام تمہارے در سے
لاج رکھ لی ہے مری خونِ جبیں نے ورنہ
مِٹنے والا تھا مرا نام تمہارے در سے

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں