شاعر: عطاالحسن
ہماری عُمروں سے رائگانی کوکھا گئی ہے
فضا محبت کی بدگُمانی کو کھا گئی ہے
بِچھڑنے والے پلٹ کے آیا تُو کن دِنوں میں
کہ جب جُدائی مری جوانی کو کھا گئی ہے
یہ روزوشب اپنے زیست سے خالی کٹ رہے ہیں
مُعاش کی فکر زندگانی کو کھا گئی ہے
وہ چاہتا تھا کہ اُس کے آگے میں گڑ گڑاؤں
مری انا اُس کی خُوش گُمانی کو کھا گئی ہے
خبر نہیں ہو رہی ہمیں کچھ بھی اس دھویں میں
بُجھی ہوئی ہے یا آگ پانی کو کھا گئی ہے
ہوا نہیں آج فرطِ غم میں بھی کارِ گریہ
یہ ضبط کی خُو حسن روانی کو کھا گئی ہے
۔۔۔ عطا ا لحسن ۔۔۔