شاعر: ظہورنظر
دیپک راگ ہے چاہت اپنی، کاہے سنائیں تمھیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں، کیوں سُلگائیں تمھیں
ترکِ محبت ، ترکِ تمنّا کر چُکنے کے بعد
ہم پہ یہ مُشکل آن پڑی ہے کیسے بُھلائیں تمھیں
دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمھیں
درد ہماری محرومی کا ، تم تَب جانو گے
جب کھانے آئے گی چُپ کی سائیں سائیں تمھیں
سنّاٹا جب تنہائی کے زہر میں گُھلتا ہے
وہ گھڑیاں کیوں کر کٹتی ہیں، کیسے بتائیں تمھیں
جن باتوں نے پیار تمھارا نفرت میں بدلا
ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمھیں
رنگ برنگے ہاتھ تمھارے ہجر میں ہاتھ آئے
پھر بھی یہ کیسے چاہیں کہ ساری عمرنہ پائیں تمھیں
اُڑتے پنچھی، ڈھلتے سائے، جاتے پَل اور ہم
بیرن شام کا تھام کے دامن روز بلائیں تمھیں
دور گگن پر ہنسنے والے نرمل کومل چاند!
بے کل من کہتا ہے، آؤ، ہاتھ لگائیں تمھیں
پاس ہمارے آ کر تم بے گانہ سے کیوں ہو؟
چاہو تو ہم پھر کچھ دُوری پر چھوڑ آئیں تمھیں
اَن ہونی کی چِنتا ، ہونی کا انیائے نظر
دونوں بیری ہیں جیون کے ہم سمجھائیں تمھیں