شاعر: باقی احمدپوری
اتنا بھی خوش نہ ہو کہ عدو قید ہو گیا
دنیا سمجھ رہی ہے کہ تُو قید ہو گیا
یہ انقلاب آیا ہے اب کے بہار میں
شاخ ِ شجر میں ذوق ِ نمو قید ہو گیا
نشتر لگا رہا ہوں کہ آزاد پِھر سکے
دل کی رگوں میں میرا لہو قید ہو گیا
کچھ دن سے سوگوارہے ماحولِ مے کدہ
مینا تڑپ رہی ہے , سبو قید ہو گیا
دامانِ تار تار لیے پھر رہے ہیں لوگ
جو شخص جانتا تھا رفو، قید ہو گیا
باقی وہ رنگِ نغمہ ء ہستی نہیں رہا
بلبل کے ساتھ سوز ِ گلو قید ہو گیا