شاعر: محسن بھوپالی
وہ ساتھ لے گیا قول و قرار کا موسم
تمام عمر ہے اب اِنتظار کا موسم
حیات اب بھی کھڑی ہے اُسی دوراہے پر
وہی ہے جبر، وہی اِختیار کا موسم
ابھی توخُود سے ہی فارغ نہیں ہیں اہلِ جمال
ابھی کہاں دلِ اُمید وار کا موسم
اُسے بھی وعدہ فراموشی زیب دیتی ہے
ہمیں بھی راس نہیں اعتبار کا موسم
جہاں گِرے گا لہُو، پھُول بھی کِھلیں گے وہیں
کِسی کے بس میں نہیں ہے بہار کا موسم
کبھی تو لوٹ کے دِلداریوں کی رُت آئے
سدا بہار ہے مُدت سے دَار کا موسم
ہم اپنے آپ کو محسن بدل کے دیکھیں گے
بدل سکے نہ اگر کُوئے یار کا موسم