شاعرہ: سبینہ سحر
صنم سے زخمِ تازہ کی شکایت بھی نہیں جاتی
اسی بے رحم ظالم سے محبت بھی نہیں جاتی
محبت کا مری کرتا تو ہے دعویٰ بہت لیکن
ہراک کو دیکھنے کی اس کی عادت بھی نہیں جاتی
نہ ملنے کی اسے میں نے قسم کھائی تو ہے لیکن
اسی کو دیکھتے رہنے کی چاہت بھی نہیں جاتی
مداوہ میرے دکھ کا وہ کرے کیسے کہ اب میری
ہنسی میں غم چھپانے کی مہارت بھی نہیں جاتی
جو لفظوں کی چبھن تھی اس کو لہجے ہی نے روکا تھا
مگر لفظوں کی لہجے سے بغاوت بھی نہیں جاتی
نہیں گرنے دیا اشکوں کو پلکوں سے ان آنکھوں نے
مگر اشکوں کے گر جانے کی فطرت بھی نہیں جاتی
دیے کی لو سے راتیں ہو تو جاتیں ہیں جواں لیکن
سحر سے روشنی لینے کی لذت بھی نہیں جاتی
سبینہ سحر