Poetry غزل

غزل … شاعرہ: سبینہ سحر


شاعرہ: سبینہ سحر
صنم سے زخمِ تازہ کی شکایت بھی نہیں جاتی
اسی بے رحم ظالم سے محبت بھی نہیں جاتی
محبت کا مری کرتا تو ہے دعویٰ بہت لیکن
ہراک کو دیکھنے کی اس کی عادت بھی نہیں جاتی
نہ ملنے کی اسے میں نے قسم کھائی تو ہے لیکن
اسی کو دیکھتے رہنے کی چاہت بھی نہیں جاتی
مداوہ میرے دکھ کا وہ کرے کیسے کہ اب میری
ہنسی میں غم چھپانے کی مہارت بھی نہیں جاتی
جو لفظوں کی چبھن تھی اس کو لہجے ہی نے روکا تھا
مگر لفظوں کی لہجے سے بغاوت بھی نہیں جاتی
نہیں گرنے دیا اشکوں کو پلکوں سے ان آنکھوں نے
مگر اشکوں کے گر جانے کی فطرت بھی نہیں جاتی
دیے کی لو سے راتیں ہو تو جاتیں ہیں جواں لیکن
سحر سے روشنی لینے کی لذت بھی نہیں جاتی
سبینہ سحر


km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

غزل

غزل

  • جولائی 12, 2019
شاعر : خورشید ربانی غم نہیں غم آفریں اندیشہ  ہے آئینے  میں جاگزیں  اندیشہ  ہے موجہِ  گرداب  تک تھے  ایک
Poetry غزل

غزل … ڈاکٹرخورشید رضوی

  • جولائی 16, 2019
ڈاکٹرخورشید رضوی دل  کو  پیہم    وہی  اندوہ  شماری   کرناایک ساعت کوشب و روز پہ طاری کرنا اب وہ  آنکھیں