شاعرہ : نجمہ منصور
تم نظم کی جس کھڑکی میں
بیٹھے ہو
وہاں سے سارا منظر صاف نظر آتا ہے
لفظوں کی رنگ برنگی تتلیوں کے ساتھ
تم بچپن سے ہی کھیلتے آئے ہو
اپنے بابا کی انگلی تھام کر
جو تمہیں کہتے
انہیں چھونا مت
ورنہ ان کے رنگ
"اور سارے نقش اور بیل بوٹے”
تمہاری انگلیوں کی پوروں پر
بے لفظ کہانیاں لکھ دیں گے
سلیم !ؔ
جان لو کہ تم
اس بے لفظ کہانی کے آخری وارث ہو
لیکن کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی
بلکہ کہانی کے اندر سے ایک نئی کہانی
جنم لیتی ہے
کئی اسرار اپنے اندر سمیٹے ہوئے لفظ
کبھی نظم، کبھی افسانہ،
تو کبھی انشائیہ کی صورت
تمہارے اندر ہمکتے ہیں
سلیم!
اپنے بابا کے لفظوں کی اقلیم
"اوراق” کے گرد پوش کو چھو کر
اس کے اندر کی
انوکھی کتھا کو تم ہی پڑھ سکتے ہو
ان لفظوں کی گرہ کوصرف تم ہی
کھول سکتے ہو
لیکن نہ جانے کیوں
تم
لفظوں کا دوشالہ اوڑھ کر
چپ چاپ پڑے ہو
اُٹھو،
آؤ کہ زندگی کے "اوراق” کب سے
تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں۔۔
( نجمہ منصور)
[یہ نظم میں نے سلیم آغا قزلباش کی وفات سے کچھ دن پہلے لکھی تھی جب سلیم آغا بہت بیمار تھے وفات سے ایک ماہ پہلے تک ہفتہ میں ایک بار ہماری بات ضرور ہوتی تھی وہ اپنی بیماری کے بارے میں تفصیل سے بات کرتے تھے آگہی بھی بہت بڑا عذاب ہے اور وہ اس عذاب سے گزر رہا تھے آخری بار جب ہماری بات ہوئی تو آواز میں بہت نقاہت تھی میں نے پوچھا کہ آپ کے پاس اسوقت کون ہےتو فون اپنی بہن مینا جی کو دے دیا اس دن سے دوسرے تیسرے دن مینا جی سے بات ہوتی رہی بس دل درد سے بھر گیا ہے کیسے ہنستا کھیلتا انسان یکلخت جنازے میں تبدیل ہو جاتا ہے سلیم آغا کو اس روپ میں دیکھا تو پتہ چلا کہ انسان پل بھر میں کیسے یاد بن جاتا ہے اللہ سلیم آغا کی اگلی منزل آسان فرمائے آمین]