شاعر : یوسف خالد
یہ بے آب و گیاہ
پیاسی زمیں
بنجر نہیں ہے
ذرا موسم بدلنے دو
ہوا دامن بھگوئے
سبز رت کو ہر طرف تقسیم کرتی پھر رہی ہے
ہمارے ساتھ آؤ
چند لمحوں کےلیے چشم تصور وا کرو
دیکھو
کہیں بادل گھٹا کے روپ میں
کھل کر برسنے کے لیے بےتاب پھرتا ہے
زمیں کی گود میں سویا ہوا سبزہ
فقط اک لفظ کن کا منتظر ہے
یہ آدھی رات کو بوندیں برسنے کا سماں
ٹھنڈی ہوا
اٹھکیلیاں کرتا ہوا بادل
یہ افسانہ نہیں ہے
یہ سب احساس ہے
احساس کی اجلی ریاضت کا ثمر ہے
چلو آؤ
کسی صورت
تصور کی حسیں وادی سے دم بھر کے لیے
آنکھوں کے رستے خواب تک
پھر خواب سے تعبیر تک آئیں
اسے تجسیم کرنے کا ہنر سیکھیں
زمیں کی کوکھ میں جو بیج دم گھٹنے کےباعث مر رہا ہے
اسے بادل کے آنے کی خبر دیں
اسے یہ بات سمجھائیں
کہ بے آب و گیاہ پیاسی زمیں
بنجر نہیں ہے
یوسف خالد