شاعر: میرانیس
رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں
جُز غ مِ آلِ عبا ہم اور غم رکھتے نہیں
کربلا پُہنچے زیارت کی ہمیں پروا ہے کیا؟
اب ارم بھی ہاتھ آئے تو قدم رکھتے نہیں
در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے
سرجہاں رکھتے ہیں سب،ہم واں قدم رکھتے نہیں
دیکھنا کل ٹھوکریں کھاتے پھریں گے اُن کے سر
آج نخوت سے زمین پر جو قدم رکھتے نہیں
کہتے تھے اعدا کہ بچے بھی علی کے شیر ہیں
جب بڑھاتے ہیں تو پھر پیچھے قدم رکھتے نہیں
چادریں جب چھینیں رانڈوں کی تو عابد نے کہا
کچھ حیا و شرم یہ اہلِ ستم رکھتے نہیں
مرثیے اِک دن میں کیاسب کہہ کے اُٹھوگے انیس
ہاتھ سے کیوں آج قرطاس و قلم رکھتے نہیں