شاعر: مصطفی زیدی
شہر میں غل تھا کہ بنگال کا ساحر آیا
مصر و یونان کے اہرام کا سیّاحِ عظیم
چین و جاپان کے افکار کا ماہر آیا
ایک ٹیلے پہ طلسمات کا پہرہ دیکھا
میں نے بھی دل کے تقاضوں سے پریشاں ہو کر
آخر اُس ساحر طنّاز کا چہرہ دیکھا
کتنا مغرور تھا اس شخص کا مضبوط بدن
کتنا چالاک تبسّم تھا جواں ہونٹوں پر
کیسے رہ رہ کے لپک جاتی تھی آنکھوں میں کرن
کتنا مرغوب تھا ہر فرد مری ملّت کا
ڈرتے ڈرتے جو چھُوا میں نے تو یہ راز کھُلا
وہ فقط موم کا اک خوف زدہ پُتلا تھا