شاعر: مجید امجد
تنگ پگڈنڈی سرِ کہسار بل کھاتی ہوئی
نیچے، دونوں سمت، گہرے غار منہ کھولے ہوئے
آگے، ڈھلوانوں کے پار، اک تیز موڑ اور اس جگہ
اک فرشتے کی طرح نورانی پر تولے ہوئے
جھک پڑا ہے آ کے رستے پر کوئی نخلِ بلند
تھام کر جس کو گزر جاتے ہیں آسانی کے ساتھ
موڑ پر سے، ڈگمگاتے رہرووں کے قافلے
ایک بوسیدہ، خمیدہ پیڑ کا کمزور ہاتھ
سینکڑوں گرتے ہوؤں کی دستگیری کا امیں
آہ! ان گردن فرازانِ جہاں کی زندگی
اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنہیں حاصل نہیں