شاعر: ن م راشد
یاد ہے اک رات زیرِ آسمانِ نیلگوں
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات!
چاند کی کرنوں کا بے پایاں فسوں___ پھیلا ہوا
سرمدی آہنگ برساتا ہوا___ ہر چار سُو!
اور مرے پہلو میں تُو___!
میرے دل میں یہ خیال آنے لگا:
غم کا بحرِ بے کراں ہے یہ جہاں
میری محبوبہ کا جسم اک ناؤ ہے
سطحِ شور انگیز پر اس کی رواں
ایک ساحل، ایک انجانے جزیرے کی طرف
اُس کو آہستہ لیے جاتا ہوں میں
دل میں یہ جاں سوز وہم
یہ کہیں غم کی چٹانوں سے نہ لگ کر ٹوٹ جائے!
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات
تیرے دل میں راز کی ایک کائنات
تیری خاموشی میں طوفانوں کا غوغائے عظیم
سرخوشِ اظہار تیری ہر نگاہ
تیرے مژگاں کے تلے گہرے خیال
بے بسی کی نیند میں الجھے ہوئے!
تیرا چہرہ آبگوں ہونے کو تھا
دفعتاً، پھر جیسے یاد آ جائے اک گم گشتہ بات
تیرے سینے کے سمن زاروں میں اٹھیں لرزشیں
میرے انگاروں کو بے تابانہ لینے کے لیے
اپنی نکہت، اپنی مستی مجھ کو دینے کے لیے
غم کے بحرِ بے کراں میں ہو گیا پیدا سکوں
یاد ہے وہ رات زیرِ آسمانِ نیلگوں
یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات!