شاعر: اقتدارجاوید
میں گہری نیند میں
پانی بھرے بادل بناتا ہوں
ہوا کاریشمیں پیکر بنا کر
بھاری بادل اور ہوا یک جان کرتا ہوں
بتاتا ہوں انہیں وہ شام
جب چھاجوں برسنا ہے
میں گہری نیند میں
سوئے پرندوں کو جگاتا ہوں
انہیں رستہ دکھاتا ہوں
جہاں پر ان کو اڑنا ہے
انہیں وہ آخری خطہ دکھاتا ہوں
جہاں جاکر انھیں واپس پلٹنا ہے
میں گہری نیند میں
سورج کو تکتا ہوں
دکھاتا ہوں
افق کا میلا میداں
اور تھوڑا جھلملاتا ہوں
بتاتا ہوں کے ایسے جھلملانا ہے
اگر پھولوں بھرے رستے پہ
گرمی پڑ رہی ہو تو
گھنیرے بادلوں کی اوٹ میں
آہستہ چلنا ہے
میں ان پتوں پہ اپنا سایہ کرتا ہوں
جنھیں خاشاک ہونا ہے
میں ان شاخوں کو ہونٹوں سے لگاتا ہوں
جہاں پر پھول کھلنے ہیں
جہاں پتے نکلنے ہیں
میں گہری نیند میں
نیلے پہاڑوں کی طرف جاتا ہوں
اس چشمے پہ جا کر بیٹھ جاتا ہوں
جہاں ایڑی نہیں لگنی
مگر شفاف پانی کو ابلنا ہے
میں گہری نیند میں
بوڑھوں کی خاموشی میں روتا ہوں
انہیں میں دیکھتا ہوں
کس طرح بچوں کو
ان کی آخری سانسوں کو گننا ہے
میں ان بچوں سے لگ کر بیٹھ جاتا ھوں
سنہری اون والی بھیڑ کے
گہرے سنہری بال گنتے گنتے
آخر جاگ جاتا ہوں!!!