اک نیا دور ہے
ایک انجانا ڈر
اس نئے دور کے ہیں نئے فتنہ گر
اور نئے چارہ گر
ہر نگر ، ہر ڈگر
لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے خیر و شر
الاماں الا ماں ، زندگی کے لیے
کس قدر بے اماں ہو گئے روز و شب
مجلسی زندگی خواب لگنے لگی
باہمی غمگساری کے اظہار کے
جتنے رائج تھے سب طور عنقا ہوئے
ہمرہی، ہم نشینی فسانہ ہوئی
خاک زادوں پہ کیسا کڑا وقت ہے
آنکھ میں حیرتیں
روح ویران ہے
یہ نیا دور ہے
یہ نیا دور ہے اے دلِ بے خبر
معتکف ہو کے یادوں کی جانب پلٹ
اپنی یادوں کو اپنے گلے سے لگا
اس نئے دور کے سب تقاضے سمجھ
رات کٹ جانے دے، رات کٹ جائے گی
دن نکل آئے گا ،دھند چھٹ جائے گی
پل رہی ہے کہیں پردہءِ غیب میں
ایک صبحِ درخشاں تمہارے لیے
اے دلِ بے خبر
معتکف ہو کے یادوں سے وابستہ رہ
ضد نہ کر اب ملاقات ممکن نہیں