آنکھیں نیند سے
بوجھل ہو گئی ہیں
بستر پہ پڑا جسم
تھکا ہواہے
خواب اب روٹھ چکے ہیں
خاموشی تنہائی میں
اندھیرے سے باتیں کر رہی ہے
دروازے پہ جمے تالے
کئی دنوں سے
خاک سے خود کو چھُپائے
رو رہے ہیں
شیلف میں سجی کتابیں
کئی بار سینہ کھول کر
اپنا حال سُنا بیٹھی ہیں
کھڑکی سے اُترتی تھوڑی سی روشنی
اُمید دلاتی ہے مسکرا کے
کھلی فضا میں سانس کی