نظم

کھلی فضا : فیض محمد صاحب

آنکھیں نیند سے
بوجھل ہو گئی ہیں
بستر پہ پڑا جسم
تھکا ہواہے
خواب اب روٹھ چکے ہیں
خاموشی تنہائی میں
اندھیرے سے باتیں کر رہی ہے
دروازے پہ جمے تالے
کئی دنوں سے
خاک سے خود کو چھُپائے
رو رہے ہیں
شیلف میں سجی کتابیں
کئی بار سینہ کھول کر
اپنا حال سُنا بیٹھی ہیں
کھڑکی سے اُترتی تھوڑی سی روشنی
اُمید دلاتی ہے مسکرا کے
کھلی فضا میں سانس کی

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی