مسلسل بارش کا شور ہے
بجلیوں کی کڑک بھی ہے
اگرچہ گارے سے بھری سڑکیں ہیں
راستے کئیں بند بھی ہیں
لیکن کام کسی طور یہ
بند ہو نہیں سکتے
سب اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں
بارش کے شور میں
ایک شور اس کارواں کا بھی ہے
جو بھوک کے نشے کی خاطر
خود داری کی بستی سے ہر صبح نکلتا ہے
دن میں سارے کام نمٹا کر
شام کو واپس
تحمل کے بستر پر چین سے سو جاتا ہے
پھر اگلی صبح اسی تصادم کے لیے
راہیں استوار کرتا ہے
یہ قدرت کا اصول ہے
ہمیں وقت کے اس بے لگام گھوڑے پر
سفر کرنا ہے
اسی سفر کے دوران ہمیں
نہتے خوابوں کو تسخیر کر کے
انہیں روشن تعبیروں کا زیور پہنانا ہے
ہمیں منزلوں کو آسان بھی بنانا ہے
ہمیں کوششوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
قدم بہ قدم ساتھ چلنا ہے
ہمیں اگر زندہ رہنا ہے تو
بغیر کسی ہٹ دھرمی کے
دلی اعتقاد کے ساتھ
کوشش کرتے رہنا ہے
اور لگاتار کرتے رہنا ہے
نواز انبالوی