یوسف خالد
کوئی آواز ہے
جو شام ڈھلتے ہی سنائی دینے لگتی ہے
مرا وجدان اپنے بال وپر کو مائل پراز کرتا ہے
گئے وقتوں کی اک اک کاش میں پیوست ہر اک صوت سے وابستہ یادیں کھوجتا ہے
ذہن و دل کے کینوس پر ان کی تصویریں بناتا ہے
میں البم کھولتا ہوں
کوہساروں میں گھری وادی کے طول و عرض پہ پھیلے ہوئے سبزے کو
پلکوں پر سجاتا ہوں
نہاں خانہ ء دل میں اٹھنے والا جذر و مد
بہتے ہوئے چشمے سے یوں ہم رشتہ ہوتا ہے
کہ کشتِ دل خزاں نا آشنا پھولوں کا مسکن بننے لگتی ہے
ہوا میں پھیلتی خوشبو
مشامِ جاں میں دھیرے سے اترتی ہے
مرے احساس کو مہمیز کرتی ہے
میں ڈھلتی شام کے پہلو میں بیٹھا
میز پر رکھی ہوئی فائل اٹھاتا ہوں تو میری آنکھ میں ہر ایک منظر جاگ اٹھتا ہے
سماعت میں رکھی آواز
مدھم ہونے لگتی ہے
پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کو لوٹ جاتے ہیں
یوسف خالد