نظم

کسی صورت انھیں سمجھایا جائے : یوسف خالد

جو ہجرت کر گئی تھیں فاختائیں
وہ لوٹ آئی ہیں یہ پیغام دینے
یہ گرتی آبشاریں بہتے چشمے
یہ بل کھاتی ہوئی پگڈنڈیاں
یہ خوبصورت وادیوں میں جھومتے لہراتے دریا
یہ کہساروں کا ماتھا چومتا سبزہ
گھنے جنگل
یہ صحراؤں میں ہر سو ٹوٹتے بنتے ہوئے ٹیلے
یہ خوشبو سے بھرے پھولوں کی بیلیں
یہ رنگوں کی صباحت سے مزیّن تتلیاں
یہ چہچہاتی ننھی چڑیاں
خوبصورت گیت گاتی کوئلیں
یہ خوش نما منظر
یہ سب چھوٹے بڑے گہرے سمندر
زمیں پر بسنے والوں کا اثاثہ ہیں
زمیں کے رزق میں حصہ ہے سب کا
زمیں سب کی ہے سب وارث ہیں اس کے
مگر یہ کیا
ہوس کا جال پھیلا کر زمیں زاد
اصولوں سے بغاوت کر رہے ہیں
امانت میں خیانت کر رہے ہیں
زمیں کے امن کو تاراج کر کے
یہ دہشت کی حمایت کر رہے ہیں
کسی صورت انہیں سمجھایا جائے
کہ یہ پاگل حماقت کر رہے ہیں
نئی افتاد ان کے روبرو ہے
کوئی تدبیر کام آتی نہیں ہے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رہے ہیں
سمجھ جائیں تو شاید بچ بھی جائیں
یہ نا سمجھی کے ہاتھوں مر رہے ہیں

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی