جو ہجرت کر گئی تھیں فاختائیں
وہ لوٹ آئی ہیں یہ پیغام دینے
یہ گرتی آبشاریں بہتے چشمے
یہ بل کھاتی ہوئی پگڈنڈیاں
یہ خوبصورت وادیوں میں جھومتے لہراتے دریا
یہ کہساروں کا ماتھا چومتا سبزہ
گھنے جنگل
یہ صحراؤں میں ہر سو ٹوٹتے بنتے ہوئے ٹیلے
یہ خوشبو سے بھرے پھولوں کی بیلیں
یہ رنگوں کی صباحت سے مزیّن تتلیاں
یہ چہچہاتی ننھی چڑیاں
خوبصورت گیت گاتی کوئلیں
یہ خوش نما منظر
یہ سب چھوٹے بڑے گہرے سمندر
زمیں پر بسنے والوں کا اثاثہ ہیں
زمیں کے رزق میں حصہ ہے سب کا
زمیں سب کی ہے سب وارث ہیں اس کے
مگر یہ کیا
ہوس کا جال پھیلا کر زمیں زاد
اصولوں سے بغاوت کر رہے ہیں
امانت میں خیانت کر رہے ہیں
زمیں کے امن کو تاراج کر کے
یہ دہشت کی حمایت کر رہے ہیں
کسی صورت انہیں سمجھایا جائے
کہ یہ پاگل حماقت کر رہے ہیں
نئی افتاد ان کے روبرو ہے
کوئی تدبیر کام آتی نہیں ہے
سبھی اک دوسرے سے ڈر رہے ہیں
سمجھ جائیں تو شاید بچ بھی جائیں
یہ نا سمجھی کے ہاتھوں مر رہے ہیں