میں کوٸی شے دوبارہ نہیں لکھ رہا
صرف دہرا رہا ہوں
کوٸی پیش، جزم اور زیر اور زبر تک بدلنے نہیں جا رہا
یہ حکایت قدیمی ہے
دن ریت کے دانوں کی طرح اڑتے ہیں لیکن حکایت کہ ذرہ برابر بھی تبدیل ہوتی نہیں
اس حکایت کا سننا سنانا زمانے کو دھکا لگانا زمانے کو آگے بڑھانا ہے
رسیا وہی لوگ ہیں اس حکایت کے جو اس سے معنیٰ نیا اخذ کرنے پہ قادر ہیں
لذت سے بھرپور ہے ان کی طبع پھلوں سے بھری ٹوکری ہے حکایت
حکایت وہ رنگلا کبوتر ہے
جو پیڑ کے شاخچوں پہ نہیں بیٹھتا ہے
مزاروں پہ اڑتا ہے
لوگوں سے جڑتا ہے
دریا ہے کوٸی کہ جس نے پہاڑوں کو اور سبز میدانوں کو کو چیرتے ڈیلٹے میں اترنا ہے
رنگوں کا معمورہ ہے یہ حکایت
حکایت کا اک لفظ بھی جس کے اندر اترتا ہے
وہ اور رنگین ہوتا ہے
رنگین تر ہونے والے کے اندر کوٸی جین ہوتا ہے
جو کہ دوبارہ حکایت کی تشکیل کرتا ہے اور آنے والے زمانوں کی جانب حکایت کی ترسیل کرتا ہے!!