اقتدارجاوید
[ نظم : قاسم حداد ۔۔۔ بحرین ۔ (پیداٸش 1948ء) ۔۔۔ اردوترجمہ : اقتدار جاوید ]
پتھر کے ٹکڑے سے
میری طرح کون واقف ہے
پتھر کا ٹکڑا
پہاڑوں کے اک جِین سے پیدا ہوتا ہے
اور دھات کی طرح پلتا ہے
بچے کی صورت بڑا ہوتا ہے
اس کے نقش قدم پر میں چلتا ہوں
خاموشی ہے اس کی اک سنتا دل
اس کی خلوت حروفِ تہجی ہیں
جو بولنے میں مدد کرتے ہیں!
یہ خزانوں کو کرتا ہے صیقل
نقوش اپنے کتنی کتابوں پہ اور آئینوں پہ بناتا ہے
جنت کے شیشوں سے پڑھتا ہوں
اس جذبے کو میں
جو جذبے کو موتی بناتا ہے
اٹھتا ہے اوپر ماحول
اور ہوا کی طرح
اور میری طرح ان کتابوں کے ہمراہ رہتا ہے
پتھر کا ٹکڑا ، اکیلا
اکیلے مسافر کا ساتھی ہے
پتھر کے ٹکڑے کے پانی سے چوٹی چمکتی ہے
پیڑوں کی نیندوں پہ یہ پہرہ دیتا ہے
ڈھلوانی رستوں پہ جھکتا ہے
برف اس کا پیغام دھوتی ہے
گہرے سمندر کے سنتا ہے کتنے سندیسے
ان آنکھوں سے جن میں تجسس بھرا ہے
مسافر کے بچپن پہ چیتے کی صورت لپکتا ہے
چیتا کہ جو جال میں جھولتا ہے
مجھے کر کے ساکت
کلائی کے نیچے سے نبضوں کو سنتا ہے
اوپر چمکتا ہے، آوارہ پھرتا ہے
ہزیان بکتا ہے
رہتا ہے باقی محبت کی صورت
بھرا ہے سفر سے، سفر کی انوکھی مسرت سے
اور جانتا ہے
مری غلطیوں کو، مرے نقشِ پا کو
مری طرح وہ درگزر کرتا ہے
بھول جاتا ہے!!