ریت سے بت نہ بنا، اے میرے اچھے فنکار!
اک لمحہ کو ٹھہر، میں تجھے پتھر لادوں
میں ترے سامنے انبار لگادوں، لیکن
کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پر حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیبِ سفید
اس کے مرمر میں سیہ خون جھلک جاتا ہے
اک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے، مگر
ہاتھ میں تیشہ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے، سب پتھر ہیں
جتنی اقدار ہیں اس دور کی، سب پتھر ہیں
سبزہ و گل بھی ، ہوا اور فضا بھی پتھر
شعر بھی، رقص بھی، تصویر و غنا بھی پتھر
میرا الہام، ترا ذہن ِ رسا بھی پتھر
اس زمانے میں ہر فن کا نشاں پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں ترے، میری زباں پتھر ہے
ریت سے بت نہ بنا، اے میرے اچھے فنکار!