نظم

پانی کا کوئی رنگ نہیں : سعیداشعر

سعید اشعر
گھر میں
جو بھی کپڑے بوسیدہ ہو جائیں
ان کا پوچا بنتا ہے صافی بنتی ہے
ان سے گھر میں ڈسٹنگ کی جاتی ہے
بچوں کا بچھونا یا فٹ پیڈ بنایا جاتا ہے
ورنہ بستی کے مسکینوں کے کام آتے ہیں
میں کپڑے کا وہ ٹکڑا ہوں
جو باورچی خانے میں
اک جانب لاپرواہی سے رکھا ہوتا ہے
جس کا اپنا رنگ نہیں
جس کی اپنی باس نہیں
چاہو تو اپنے بھیگے ہاتھوں کو اس سے پونچھو
جلتے چولہے پر دودھ کی رکھی پتیلی
اس کی مدد سے نیچے رکھو
سنک پہ ٹھہرے پانی کے چھینٹے
ککنگ رینج پہ جمتے
تیل کے دھبے صاف کرو
چاہو تو اس سوراخ میں رکھ دو
جس کے رستے رات کو چوہے آکر
باورچی خانے کے مالک بن جاتے ہیں
بیٹا! عشق کے رستے میں
ہر مرضی رستے کا پتھر ہے
ہر خواہش اک دھوکہ ہے
اس کی کوئی سمت نہیں
اس کا کوئی رنگ نہیں
اس میں کوئی سنگ نہیں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی