نظم

وقت : سلمیٰ جیلانی

وقت کے ساتھ قدم ملاتے ہوئے
مرے پاوں مٹ گئے ہیں
وہ اڑتا ہوا دکھائی نہیں دیتا
مگر اپنے پیچھے نشان چھوڑ تا جاتا ہے
وہ بھی رفتہ رفتہ مٹ کر
مٹی میں مل جاتے ہیں
وقت کی کیا مثال دوں
سبک رفتار تیز رو
طیارہ جس میں کوئی ریورس گئیر نہیں
یا پھر مسلسل اگے کی طرف سفر کرتی ہوئی کنوئیر بیلٹ
اور ہم اس پر رکھے کھلونے
اس کی تیز رفتاری کو
اپنا کمال سمجھنے کی غلطی
کر بیٹھتے ہیں
کچھ پل گزرے یہ ہمیں گراکے آگے بڑھ جاتی ہے
مگر عجیب بات ہے
یہ کبھی خالی نہیں رہتی
پرانے ہاتھ گرنے سے پہلے
نئے کھلونے اس پر سوار کرنے میں
اکثر کامیاب ہو جاتے ہیں
اور خود اپنے خوابوں سمیت کرچیوں میں ڈھل جاتے ہوئے بھی
مطمئن رہتے ہیں
اپنے کلون وقت کے ہاتھوں کھیلنے کو دینے
کا بھی اپنا ہی مزہ ہے

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی