چلو صاحب چلیں
جنگل میں جہاں
شہر کے غُل سے بہت بہت دور
اک پرسکوں گھر ہو
اُس میں صرف
تنہا میں اور تمہاری یادیں ہوں
پہاڑ چوٹیوں تک
درختوں کے سائے سے ڈھکا ہو
جہاں چرند پرند
اپنی آوازوں سے
امن کے گیت گنگنائیں
سامنے بہتی ندی ہو
اور اس میں بہتی ہوئی
پر خمار لہروں پہ
صدیوں کی تھکن
تھک ہار کر بہہ جائے
میں تمہیں آواز دوں
پتھروں سے ٹکرا کر
مجھے سنائی دے
تم ندی کے اس پار
اپنے گھر کی چھت پر آؤ
جیسے تمہیں کسی نے پکارا ہو
اور میں سمجھوں
تم میری صدا پہ آئے ہو
ہر سو ہریالی نگاہوں میں ڈھنڈک اور
سانسوں میں خوشبو بھر دے
بہت دور چلا جاؤں
ہجوم سے
کچھ دنوں کے لیے
چاہتا ہوں میں
وبا کے ختم ہونے تک