نظم

"نظم” : فیض محمد صاحب

سنو تمہیں اک نظم سنانی ہے

  1. کہ جس کا حرف حرف
    میں نے اپنی دھڑکنوں سے
    چُنا ہے
    سُنو تمہیں اپنی آنکھیں دکھانی ہیں
    کہ جن میں صرف تمہارے خواب بستے ہیں
    سُنو تمہیں خیالوں میں اتارنا ہے
    جہاں صرف تم رہتے ہو
    سُنو تمہیں دھڑکنوں سے ملانا ہے
    کہ تم چاہت کو محسوس کر سکو
    سُنو تمہیں اپنے پاس بلانا ہے
    کہ تم یہ دیکھ سکو
    میری اداس راتوں میں
    ہجر کیا حال کرتا ہے میرا
    سُنو تمہیں کچھ تصویریں بھی دکھانی ہے
    کہ جن کو دیکھ کر کوٸی یہ نہیں کہہ سکتا
    کہ جو اب میں ہوں کبھی یوں بھی تھا
    سُنو تمہیں کچھ خالی کپ بھی دکھانے ہیں
    کہ جو تمہارے ہونٹ چھونا چاہتے ہیں دوبارہ
    سُنو تمہیں کچھ یاد بھی دلانا ہے
    وہ وعدہ جو جھوٹ نکلا تمہارا
    میرے بغیر تم کتنے خوش ہو
    اور میں تمہارے بغیر بھی اداس ہوں اور تمہارہ ہوں
    سُنو تمہیں اپنے آنسو دکھانے ہیں
    جو حسرت اوڑھے اوراق پہ نظم ہو گٸے ہیں

#فیض #محمد #صاحب

younus khayyal

About Author

2 Comments

  1. گمنام

    جنوری 13, 2021

    خوب ہے

  2. محمد نعیم جاوید

    جنوری 13, 2021

    ماشاءاللہ حسبِ معمول خوبصورت کلام اعلٰی و عمدہ
    ڈھیروں دلی داد و تحسین قبول ہو برادرِ مکرم
    سدا صحت وسلامتی والی زندگی جئیں آمیـن

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی