(شام کے معروف شاعرنذار قبانی کی مشہور نظم ’’ایک ساحلی نظم‘‘ )
تری نیلی آنکھوں کے صاف اور شفّاف ساحل سے
اڑتی ھے گیلی ہوا
روشنی گنگناتی ھے
لے جاتا ھے آفتاب اپنی ناو
اندھے عدم کی طرف
(گیت گاتے )
تری نیلی آنکھوں کے صاف اور شفّاف ساحل پہ
کھلتی ھے
گہرے سممندر کی کھڑکی
پرندے نکلتے هیں
پر جھاڑتے
اور بھرتے لمبی اڑانیں
نکلتے ھیں ایسے جزیروں کی جانب
جو
دنیا کے نقشے پہ ظاہر نہیں ھیں
سممندر کے دل میں چھپے هیں
تری نیلی آنکھوں کے صاف اور شفّاف ساحل پہ
جولائی میں برف گرتی ھے
اک سمت پر
اک زمّرد بھرا دور دیسوں کی جانب نکلتا
جہاز
اب کے فرش پر بہتا ھے
اور بہتا چلا جاتا ھے
گہرے ہوتے ہے پانیوں میں !
تری نیلی آنکھوں کے صاف اور شفّاف ساحل پہ
ٹوٹی چٹانوں پہ میں دوڑتا ہوں
بہت تیز
اس ایک بچے کی صورت
سمندر کی خوشبو جسے کھینچتی ھے
پلٹتا ہوں آخر
تھکاوٹ بھرے اک پرندے کی صورت
تری نیلی آنکھوں کے صاف اور شفّاف ساحل پہ
پتھر سیاہ رات میں گنگناتے هیں
کس نے تری نیلی آنکھوں میں اتنی نظمیں
چھپائی هیں
میں بھی اگر کشتی باں ہوتا
کھیتا میں کشتی کو
اور ڈوب جاتا تری نیلی آنکھوں میں !