نظم

میں کس کی بیٹی ہوں : سعید اشعرؔ

یہ میرے دادا ہیں
پیار سے میں ان کو دادو کہتی تھی
یہ میرے چاچو ہیں
ان کو ابا کہنے سے
میرے منہ میں میٹھا گھل جاتا تھا
مصری کی ڈلی آپی
مجھ کو جان سے پیاری تھی
اب میں ان سب کی تصویویں
نوچ کے اپنے اندر سے
دیواریں خالی کرنا چاہتی ہوں
میرے بابا کہتے ہیں
ڈائن بھی سات گھروں کو
چھوڑ کے حملہ آور ہوتی ہے
ہمسائے کا حق ہوتا ہے
دادو، چاچو، آپی
تم تو میرے اپنے تھے
فرمائش کر کے
مجھ سے قرآن سنا کرتے تھے
میری تلاوت سے
تم لوگوں کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں
میری ماما اور میرے ابا کی
پہلی برسی آنے میں
کئی مہینے باقی ہیں
تم لوگوں کے کاندھوں پر
میرے آنسو ٹپکے تھے
جب میں بسترِ مرگ پہ پہنچی
تم سب نے مجھ کو اپنی سانسیں دیں
ساٹھ کروڑ کی جائیداد کی کوئی وقعت نہیں تھی
میں ویسے ہی تم لوگوں پر
نثار کر دیتی
مجھ کو ہوش میں آنے تو دیتے
اپنے چہروں پر کالک ملنے کی
تم لوگوں کو
کوئی ضرورت نہیں تھی
دنیا کیرونا کی دہشت سے
اک دوجے کے پیروں سے لپٹی تھی
تم نے میرے پاؤں کاٹ لیے
آپی! تم تو میری ماما جیسی تھیں
ٹیچر بھی تھیں
بابا کی لاڈلی بہنا تھیں
لیکن ڈائن تم سے بہتر ہے
دادو! اک بات بتائیں
میں کس کی بیٹی ہوں

younus khayyal

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی