نصرت نسیم
اے مری رفیق، میری ہمدم
میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو
تیری محبت میں گرفتار پایا
سکول جاتے ہوئے تمہارا دیدار
دل کی کلی کا کھل جانا
واپسی پر ملاقات کی سرشاری یونہی تمہاری محبت میں
تم سے ملتے ملاتے
کئی برس بیت گئے
تمہاری محبت و رفاقت نے مجھے کیا کچھ نہیں دیا
میرا دامن خوشیوں سے بھر دیا
میرے وقت کو بامعنی کردیا دیا
کتنے اچھے لوگوں سے ملوایا
کتنی ان دیکھی دنیاوں کی سیر کرائی
کتنی مسرتیں، کتنے خزانے میرے دامن میں لاڈالے
آہ میں کیسے بیاں کروں
اس محبت ورفاقت کوجس نے مجھے مالا مال کر ڈالا
یہی میری متاع عزیز، متاع گراں
جس نے مجھے سر اٹھا کر جینا سکھایا
جیون کا مفہوم سمجھایا
اور اور پھرجانے کیا ہوا
میری آنکھیں ترس گئیں تمہیں دیکھنے کو
وقت کی گرد میں کہاں کھو گئے
مادہ پرستی نے تمہیں نگل ڈالا
اہ اے میری’’ آنہ ‘‘ لائبریری
میری پہلی محبت میری ہمدم
میں تجھے کہاں تلاش کروں
تم کہاں روپوش ہو گئیں
اے مری رفیق، میری ہمدم