نظم

میرا گاؤں : سعیداشعر

سعید اشعر
سعیداشعر
روزانہ
رات کے تقریباً بارہ بجے
کھڑکی سے آنے والا
باہر کا شور
جب مدہم پڑ جاتا ہے
کمرے کی خاموشی
نوکیلی ہونے لگتی ہے
اے سی کی بوسیدہ ٹھنڈک سے
پاؤں جلنے لگتے ہیں
کمرے میں بکھرے کاغذ
زندہ ہو کر
اڑنے لگتے ہیں
لفظوں کے جگنو اور آنکھوں کے تارے
آپس میں مدغم ہو جاتے ہیں
دیواریں پیچھے ہٹنے لگتی ہیں
کمرہ چوڑا ہو جاتا ہے
اک گاؤں جتنا چوڑا
تیرے گاؤں جتنا چوڑا
پلکیں بوجھل ہو جاتی ہیں
میں زندہ ہونے لگتا ہوں

km

About Author

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

You may also like

نظم

ایک نظم

  • جولائی 11, 2019
       از : یوسف خالد اک دائرہ ہے دائرے میں آگ ہے اور آگ کے روشن تپش آمیز
نظم

آبنائے

  • جولائی 13, 2019
         اقتدارجاوید آنکھ کے آبنائے میں ڈوبا مچھیرا نہ جانے فلک تاز دھارے میں گاتی ‘ نہاتی